Ticker

6/recent/ticker-posts

اصلاح و تربیت کا حکیمانہ انداز | Islah Aur Tarbiyat Ka Hakeemana Andaaz

اصلاح و تربیت کا حکیمانہ انداز | اصلاح معاشرہ اور ہمارا کردار

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

علامہ ابن کثیر رح نے ابن ابی حاتم کی سند سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص اہل شام میں سے بڑا با رعب اور قوی تھا اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے پاس آیا کرتا تھا،ایک بار کچھ دنوں تک وہ آپ کے پاس نہ آیا تو حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے دریافت کیا، لوگوں نے کہا امیر المومنین ! اس کا حال نہ پوچھیے وہ تو شراب میں بد مست رہنے لگا ھے ۔ فاروق اعظم نے اپنے منشی کو بلایا اور فرمایا کہ یہ خط لکھو۔" منجانب عمر بن خطاب بنام فلاں بن فلاں! السلام علیکم ۔اس کے بعد میں تمہارے لئے اس اللہ کی حمد پیش کرتا ھوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ گناہوں کو معاف کرنے والا،توبہ قبول کرنے والا، سخت عذاب والا، بڑی قدرت والا ھے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔


پھر حاضرین مجلس سے فرمایا کہ سب مل کر اس کے لئے دعا کرو کہ اللہ تعالی اس کے قلب کو پھیر دے اور اس کی توبہ قبول فرمائے، فاروق اعظم نے جس قاصد کے ہاتھ یہ خط بھیجا اس کو ھدایت کر دی تھی کہ یہ خط اس کو اس وقت تک نہ دے جب تک کہ وہ نشے سے ہوش میں نہ آئے اور کسی دوسرے کے حوالے نہ کرے،جب اس کے پاس حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ خط پہونچا اور اس نے پڑھا تو بار بار ان کلمات کو پڑھتا اور غور کرتا رہا کہ اس میں سزا سے ڈرایا بھی گیا ہے اور معاف کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے پھر رونے لگا اور شراب خوری سے باز آ گیا،اس نے ایسی توبہ کی کہ پھر اس کے پاس نہ گیا یعنی شراب کے قریب نہ گیا۔


حضرت فاروق اعظم کو جب اس اثر کی خبر ملی تو لوگوں سے فرمایا کی ایسے معاملات میں تم سب کو ایسا ہی کرنا چاہئیے ۔کہ جب کوئی بھائ کسی لغزش میں مبتلا ہو جائے تو اس کو درستی پر لانے کی فکر کرو اور اس کو اللہ کی رحمت کا بھروسہ دلاو اور اللہ سے اس کے لئے دعا کرو کہ توبہ کر لے اور تم اس کے مقابلہ پر شیطان کے مددگار نہ بنو،یعنی اس کو برا بھلا کہہ کر یا غصہ دلا کر دین سے اور دور کر دو گے تو یہ شیطان کی مدد ہوگی۔

انسانی عظمت کے تابندہ نقوش مرتبہ راقم الحروف

مذکورہ ہواقعہ سے یہ سبق اور پیغام ملا کہ ایک داعی کو شفیق، ہمدرد، غمگسار، مخلص اور حکیم و دانا ہونا چاہیے۔ اس کے اندر روحانی مرض کی تشخیص اور اس کے درست اور صحیح علاج کی صلاحیت ہو ۔ وہ یہ جانتا ہو اور اس امر سے خوب واقف ہوکہ کس مریض کا علاج کس طرح سے کیا جائے اس کو کتنا ڈوز دیا جائے اور علاج کا کون سا طریقہ اس مریض کے حق میں بہتر اور مفید ہوگا ۔ ایک نسخہ اور ایک ہی طریقہ علاج پر ضد اور اصرار یہ کسی بہترین طبیب اور ڈاکٹر کی پہچان نہیں ہے ۔ ایک داعی کو بھی مریض کے روحانی علاج کے لئے ان کی اصلاح و تربیت کے لئے موقع کی مناسبت کے ساتھ علاج و اصلاح اور تربیت کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔


قرآن مجید میں متعدد انبیاء کرام کا اپنی قوم سے خطاب اور داعی و مدعو کا مکالمہ

قرآن مجید میں متعدد انبیاء کرام کا اپنی قوم سے خطاب اور داعی و مدعو کا مکالمہ کا تذکرہ کیا گیا ہے،ان مکالمات اور داعیانہ گفتگو سے یہ پتہ چلتا ہے کہ تمام انبیاء کرام نے اپنی دعوت و تبلیغ میں حکمت و موعظت اور جدال احسن کے پہلو کو اپنایا ہے ۔ تمام نبیوں اور رسولوں نے داعیانہ حیثیت سے جو اسلوب لہجہ اور ہمدردانہ اور مشفقانہ طرز اختیار کیا ہے اور قوموں کے ساتھ جو ہمدردی اور دل سوزی کا مظاہرہ کیا ہے اس میں ایک داعی و مبلغ کے لئے بہترین اسوہ اور نمونہ ہے ۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی گفتگو ان کے والد کے ساتھ منقول ہے انہوں نے انتہائی ہمدردی اور دل سوزی اور محبت کیساتھ اپنے والد کو شرک کے انجام سے باخبر کیا ہے اور آخرت کے عذاب سے ڈرایا ہے ۔ انہوں نے اپنے باپ سے خطاب کا جو اسلوب اختیار کیا ہے وہ بھی قابل تقلید ہے کہ ایک جگہ چار بار بڑی محبت سے اور دلسوزی کے ساتھ *یا ابت* کہہ کر اپنے والد کو مخاطب کیا ہے کہ اے میرے ابا جان ۔ اے میرے ابی، اے میرے پیارے ڈیڈی !


خطاب کا ایک ذریعہ تحریری شکل میں مخاطب تک پیغام رسانی

خطاب کا ایک ذریعہ تحریری شکل میں مخاطب تک پیغام رسانی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد بادشاہوں کو جو خطوط ارسال فرمائے اور جس اسلوب سے آپ نے ان کو خطاب کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔

صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری دعوت حکمت سے عبارت ہے ۔ قرآن

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری دعوت حکمت سے عبارت ہے ۔ قرآن مجید میں بھی آپ کو مخاطب بنا کر امت کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ حکمت و موعظت اور جدال احسن کے ساتھ آپ فریضہ دعوت ادا کیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کائنات میں بحیثیت مبلغ و معلم اور مربی بنا کر بھیجے گئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فریضہ کو پوری ذمہ داری اور حکمت سے انجام دیا اور زندگی بھر اس کے لئے الگ الگ انداز اور مختلف طریقے سے جدوجہد کی اور اپنے بعد اس کام کو امت کے سپرد کیا ۔ اب اس امت کا فرض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے انداز اور نہج میں اس کو انجام دینے کی کوشش کرے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت دین کے لئے جن ذرائع کا استعمال کیا وہ حسب ذیل ہیں ۔ تقریر و وعظ،خطوط نگاری، دعوتی و تبلیغی اسفار،وفود اور جماعت کی روانگی، تلاوت قرآن اور اس کی تفسیر،پچھلی امتوں کی داستان ۔ ترغیب و ترہیب ۔ ہم دردری و محبت کا اظہار ۔ تالیف قلب اور مالی نصرت و تعاون۔ انفاق ۔ بسا اوقات جوش و ولولہ کا اظہار ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں جو حکمتیں پائی جاتی تھیں اس کی تفصیل ہم عناوین کی شکل میں یوں سمجھ سکتے ہیں۔

دعوت دین میں تدریج کا پہلو

انسانی نفسیات کی رعایت ۔ مخاطب کے ذہنی و فکری سطح کی رعایت ۔ منطقی طرز استدلال ۔ دعوت دین میں تدریج کا پہلو ۔ ان تمام عناوین اور سرخیوں کی تفصیلات اور قرآن و احادیث سے اس کے نمونے ان شاء ہم آپ کی خدمت پیش کریں گے ۔ آج صرف اتنا بتاتے چلیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت میں جو پہلو سب زیادہ نمایاں ہے وہ حسب ذیل ہیں۔

انبیاء کرام علیہم السلام نے گفتگو کے لیے بہتر پیرایہ اختیار کیا ۔ دعوت دین میں انبیاء کرام علیہم السلام ہمیشہ بے غرض رہے انہوں نے کبھی اجرت اور منصب کو طلب نہیں کیا ۔دعوت دین مخاطب تک صرف ایک بار پہنچا دینے سے دعوت کا حق ادا نہیں ہوتا بلکہ مسلسل خطاب کی ضرورت ہے انبیاء کرام علیہم السلام نے سالہا سال تبلیغ کی لیکن مایوس اور ناامید نہیں ہوئے ۔ انبیاء کرام علیہم السلام نے ہمیشہ قوموں کی خیر خواہی کی اور انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے کی بھرپور کوشش کی ۔ قوموں کے مسلسل انکار اور ہٹ دھرمی کے باوجود انبیاء کرام علیہم السلام نے بدکلامی اور جھنجھلاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا ۔
 ناشر / مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے