Ticker

6/recent/ticker-posts

مثنوی گلزار نسیم کی خصوصیات | Masnavi Gulzar e Naseem Ki Khususiyat

مثنوی گلزار نسیم کی خصوصیات

گلزارِ نسیم (پنڈت دیا شنکر نسیم)
اردو ادب میں جن دو مثنویوں نے بے پناہ شہرت حاصل کی ہیں ان میں سے ایک میر حسن کی مثنوی ”سحرالبیان“ہے اور دوسری پنڈت دیا شنکر نسیم کی مثنوی”گلزار نسیم ہے۔ جن میں سے ایک فتنہ ہے تو دوسری ”عطر فتنہ“ دونوں ہی مثنویوں نے اردو شاعری کی دنیا میں بھرپور قیامت برپا کر دی تھی۔

مثنوی”سحرالبیان“ میں سادگی کا حسن ہے تو ”گلزار نسیم“میں لفظوں کی پرکاری کا جادو ہے، یعنی کہ دونوں ہی مثنویاں ساحری اور عشوہ طرازی سے پُر ہیں ۔


مثنوی گلزار نسیم کی اہمیت اور مقبولیت کے اسباب

آب حیات کے مصنف مولانا محمد حسین آزاد لکھتے ہیں کہ ” ہمارے ملکِ سخن میں سینکڑوں مثنویاں لکھی گئیں لیکن ان میں فقط دو نسخے ہی ایسے نکلے جنہوں نے طبیعت کی موافقت سے قبول عام کی سند پائی ۔ ایک” سحرالبیان“ اور دوسرے ”گلزار نسیم“ اور تعجب یہ ہے کہ دونوں کے رتبے بالکل الگ الگ ہیں۔“

مثنوی”گلزار نسیم“ پنڈت دیا شنکر نسیم کی پہلی ایسی مثنوی ہے جس نے انہیں حیات جاودانی اور شہرت عام عطا کی اور یہی وہ مثنوی ہے جس کو لکھنو کے دبستانِ شاعری کی پہلی طویل نظم ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا ہے۔

پنڈت دیا شنکر نسیم خواجہ حیدر علی آتش کے شاگردوں میں سے تھے اسلئے مثنوی گلزار نسیم کی تصنیف کے دوران شاگرد کو قدم قدم پر اپنے استاد کی رہنمائی بھی حاصل ہوتی رہی ۔ حیدر علی آتش کی ہدایت پر ہی نسیم نے مثنوی کو مختصر کر کے دوبارہ نئے سرے سے لکھا او ر مثنوی گلزار نسیم ایجاز و اختصار کا معجزہ کہلایا ۔


مثنوی گلزار نسیم کی خصوصیات

مثنوی گلزار نسیم کی خصوصیات کے متعلق فرمان فتح پوری صاحب کا کہنا ہے کہ
” اس میں کردار نگاری، جذبات نگاری اور تسلسل بیان کی کم و بیش وہ سبھی خصوصیات ہیں جو کہ ایک افسانوی مثنوی کے لئے ضروری خیال کی جاتی ہیں لیکن اس کی دلکشی کا راز دراصل اس کی رنگین بیانی، معنی آفرینی، کنایاتی اسلوب، لفظی صناعی اور ایجاز نویسی میں پوشیدہ ہے ان اوصاف میں بھی اختصار ایجاز کا وصف امتیازی نشان کی حیثیت رکھتا ہے۔“

مثنوی گلزار نسیم کا پلاٹ

”گلزارنسیم “ کے پلاٹ سےاس کے قصہ کا آغاز اس طرح سے ہوتاہے کہ
ایک بادشاہ کا نام زین الملوک تھا۔ اس کے چار بیٹے تھے کچھ سالوںبعد پانچواں بیٹا پیدا ہواجس کا نام تاج الملوک رکھا گیا۔ تاج الملوک کے بارے میں نجومیوں نے پیش گوئی کی کہ اگر بادشاہ کی نظر اس پر پڑی تو وہ بینائی سے محروم ہوگااو ر ایسا ہی ہوا۔ چنانچہ طبیبوں نے اس کا علاج یہ تجویز کیا کہ ایک پھول ہے جس کا نام ” گل بکاولی“ ہے۔ اُس پُھول سے اس کیبینائیپھر سے واپس آسکتی ہے۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے مثنوی گلزار نسیم کا سارا قصہ بیان کیا گیا ہے۔


گلزار نسیم کی خصوصیت اس کے پلا ٹ کی پیچیدگی ہے

گلزار نسیم کی ایک اہم خصوصیت اس کے پلاٹ کی پیچیدگی میں ہے۔ یہ صرف تاج الملوک اور بکاولی کے عشق کی داستان نہیں ہے۔اور نہ ہی صرف ایک پھول حاصل کرنے کی معمولی اور مختصر کہانی ہے بلکہ اس میں کئی بڑی بڑی کہانیاں بھی گُتھ گئی ہیں ۔ شہزادہ تاج الملوک کی شادی کے ساتھ ہی گلزار نسیم کا قصہ ختم ہو جانا چاہئے تھا لیکن راجہ اندر اور چتراوت اس کہانی کو اور آگے لے جاتے ہیں درحقیقت یہ کہانی ایک استعارہ ہے کہ کسی بھی مقصد کے حصول میں کیسی کیسی اور کتنی دشواریاں پیش آتی ہیں۔ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کس طرح آگ کے دریا میں خود کو غرق کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی مقصد حاصل ہونے کے بعد بھی ہمارے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ لیکن ارادہ پختہ اور کوشش مستحکم ہو تو پھر مقصد ہمارے ہاتھ آ ہی جاتا ہے۔


مثنوی گلزار نسیم میں معاشرت کی تصویر کشی کی خصوصیات

اگرچہ ” گلزار نسیم“ کا پلاٹ مکمل طور پر فرضی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شاعر اپنے دور سے مواد حاصل کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ” گلزار نسیم“ میں نوابین اودھ کے عہد کی تہذیب نظر آتی ہے۔ پنڈت دیا شنکر نسیم نے نواب غازی الدین حیدر، نواب نصیر الدین حیدر، نواب محمد علی شاہ، نواب امجد علی شاہ کا زمانہ دیکھا تھا ۔ اس لئے اس عہد میں لکھنو میں جو رواج تھے ان کی جھلک ”گلزار نسیم“میں بھی نظر آتی ہے۔ جب تاج الملوک اور بکاولی کی شادی ہوئی تو کچھ رسمیں ادا کی گئیں جن کا ذکر نسیم یوں کرتے ہیں:

گل سے خوانوں میں زردہ لایا
ان غنچہ دہانور کو کھلایا
جب عقد کی انکے ساعت آئی
دو رشتوں میں ایک گرہ لگائی
حق پاکے جو رکھتی تھیں قدامت
بول اٹھیں مبارک و سلامت

مثنوی گلزار نسیم کے ان اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ لکھنو کے نوابی دور میں ناچ گانے کے علاوہ حقہ، پان، کھانے کا رواج بھی تھا۔ اور بھی بہت سے رواج اور رسم مثنوی” گلزار نسیم “ میں ملتے ہیں۔


مرصع کاری بندش الفاظ کی خصوصیات

مرصع کاری میں ” گلزار نسیم“ اپنی مثال آپ ہے اس کے لکھنے والے پنڈت دیا شنکر نسیم، خواجہ حیدر علی آتش کے شاگرد تھے۔ اور خود آتش کے خیال میں شاعری مرصع ساز کا کام ہے چنانچہ بندش الفاظ نگوں کے جڑنے کی مثل ہیں ۔ دیا شنکر نسیم نے بھی بندش الفاظ کے معاملے میں اپنے استاد جیسی فنی مہارت کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔ دیا شنکر نسیم کی اس مثنوی میں اسی مرصع سازی کے نمونے جگہ جگہ بکھرے دکھائی دیتے ہیں مندرجہ زیل اشعار دیکھیں:

عریانی کے ننگ سے لے جائیں
ستار کی سب قسمیں کھائیں
ہم بستر آد می پری تھی
سائے کی بغل میں چاندنی تھی


مثنوی گلزار نسیم میں منظر نگاری کی خصوصیات

دیا شنکر نسیم کو منظر نگاری پر پورا عبور حاصل ہے لیکن مثنوی کو مختصر کرنے کے سلسلے میں بعض جگہوں پر اس کی کمی نظر آنے لگتی ہے یقینی طور پر اگر وہ اپنی مثنوی کو پوری طوالت کے ساتھ پیش کرتے تو ایسا نہ ہوتا۔ اس کے باوجود ”گلزار نسیم“ میں عمدہ منظر نگاری کے نمونے موجود ہیں یہ نمونے مناظر میں بھی ہیں اور کیفیات میں بھی مثلا :

جب تاج الملوک کا گزر ایک ہولناک دشت میں ہوتا ہے۔یہ منظر دکھانا ہے کہ ایک صحرا ہے بے برگ و گیاہ، سیع لق و دق جہاں کبھی کسی جانداز کا گزر نہیں ہوا چاروں طرف ایک ہو کا عالم طاری ہے اس بیان کے ساتھ ساتھ تناسب ِ لفظی موجود ہے اس میں عام نگاہیں الجھ کر رہ جاتی ہیں اور عکاسی و مصوری کا جو کمال اس میں صرف کیا گیا ہے بادی النظر میں معلوم نہیں ہوتا۔

اک جنگل میں جا پڑا جہاں گرد
صحرائے عد م بھی تھا جہاں گرد
سائے کو پتا نہ تھا شجر کا
عنقا تھا نام جانور کا


شب کو جنگل میں سانپوں کے اوس چاٹنے کا نقشہ اس طرح کھینچتے ہیں:

لہرا لہرا کے اوس چاٹی
بن میں کالوں نے رات کاٹی

راجہ جب لونڈیوں سے سوال کرتا ہے :

پوچھا پریوں سے کچھ خبر ہے
شہزادی بکائولی کدھر ہے

تو لونڈیوں کی طرف سے مناسب جواب نہ سوجھنے پر کیا کیفیت ہوئی اس کا منظر ملاحظہ ہو:

آنکھ ایک نے ایک کو دکھائی
منہ پھیر کے ایک مسکرائی
چتون کو ملا کے رہ گئی ایک
ہونٹوں کو ہلا کے رہ گئی ایک

اس سلسلے میں ایک اور دلچسپ منظر وہ ہے جب تاج الملوک پریوں کے کپڑے چرا لیتا ہے اوروہ شرمائی شرمائی بدن کو چراتی آگے بڑھتی ہیں، یہ منظر دیکھیں:

جب خوب وہ شعلہ رو نہائیں
باہر بصد آب و تاب آئیں
پوشاک دھری ہوئی نہ پائی
جانا کہ حریف نے اُڑائی
جھک جھک کے بدن چراتی آئیں
رک رک کے قدم اُٹھاتی آئیں


کیفیت کی منظر نگاری دیکھیں بکاولی کی فراق میں حالت یوں بیان کی ہے:

سنسان وہ دم بخود تھی رہتی
کچھ کہتی تو ضبط سے تھی کہتی
گرتی تھی جو بھوک پیاس بس میں
آنسو پیتی تھی کھا کے قسمیں

تاج الملوک اور گل بکاولی کا راز فاش ہونے پر ان کا کیا حال ہوتا ہے ذرا منظر دیکھیں:

دونوں کی رہی نہ جان تن میں
کاٹو تو لہو نہ تھا بد ن میں


مثنوی گلزار نسیم میں میں جذبات نگاری کی خصوصیات

پنڈت دیا شنکر نسیم کو جذبات نگاری میں ید طولیٰ حاصل ہے انہوں نے مختلف کرداروں کی جذبات کی عکاسی نہایت خوبی کے ساتھ کی ہے مثلا ً جب بکاولی کاپھول غائب ہوتا ہے تو گھبرائے ہوئے کہتی ہے:

گھبرائی کہ ہیں کدھر گیا گل
گھبرائی کہ کون دے گیا جل
ہے ہے مرا پھول لے گیا کون
ہے ہے مجھے خار دے گیا کون


ان اشعار میں بکاولی کی جذبات کی صحیح عکاسی کی گئی ہے بکائولی کا گھبرانا اور افسوس کرنا بالکل فطری ہے اس لئے ان کے جذبات میں صداقت موجود ہے۔ اس طرح تاج الملوک اور بکائولی کی شادی ہو گئی تو دونوں خوشی کے مارے پھولے نہ سمائے:

راتوں کو گنتے تھے ستارے
دن گننے لگے خوشی کے مارے

اس طرح ایک اور جگہ بکائولی کی ماں نے جب تاج الملوک کے ساتھ اس کو اختلاط میں پایا تو اس کو سخت غصہ آیا ۔ اس نے اپنے غصے کا اظہار ان الفاظ میں کیا:

حرمت میں لگایا داغ تو نے
لٹوائی بہار باغ تو نے
تھمتا نہیں غصہ تھامنے سے
چل دور ہو میر ے سامنے سے

یعنی کہ ”گلزارنسیم“ میں مختلف مقامات پر جذبات نگاری کی صحیح اور حسین تصویریں ملتی ہیں۔


مثنوی گلزار نسیم میں جزئیات نگاری کی خصوصیات

پنڈت دیا شنکر نسیم نے مختلف واقعات کو موقع و محل کے اعتبار سے پیش کیا ۔ اس لئے اس میں بلاغت کی شان پیدا ہو گئی ہے مثلاً جب چاروں شہزادے گل بکاولی لے کر آئے تو اس کی مدد سے زین الملوک کی آنکھوں میں دوبارہ روشنی واپس آگئی اس وقت بادشاہ بہت خوش ہوا اور اس نے جشن آراستہ کیا ۔ اس واقعے کو نسیم صاحب نے ان اشعار میں بیان کیا ہے:

نور آگےا چشم آرزو میں
آیا پھر آب رفتہ جو میں
نیچے سے پلک کے پھول اُٹھایا
اندھے نے گل آنکھوں سے لگایا

نسیم نے تاج الملوک اور زین الملوک کی ملاقات کا واقعہ مندرجہ ذیل اشعار میں بیان کیا ہے:

دونوں میں ہوئیں چار آنکھیں
دولت کی کھلیں ہزار آنکھیں!

راجا نے ایک روز بکائولی کو اپنی محفل میں یاد کیا کیونکہ وہ ایک عرصہ سے غیر حاضر تھی نسیم اس واقعہ کو یوں بیان کرتا ہے۔

ایک شب راجاتھا محفل آرا
یاد آئی بکائولی دل آرا
پوچھا پریوں سے کچھ خبر ہے
شہزادی بکائولی کدھر ہے


مثنوی گلزار نسیم میں مکالمہ نگاری کی خصوصیات

”گلزار نسیم“ میں کئی مقامات پر مکالمے بھی ملتے ہیں، اگرچہ مثنوی میں یہ ایک مشکل کام گنا جاتا ہے چلتی ہوئی کہانی کے بہائو میں مکالمے ٹانکنا یقینی طور پر مشکل کا م ہی ہے ۔ لیکن دیا شنکر نسیم نے قصے میں کئی جگہ اپنے فنی کمال کا ثبوت دیتے ہوئے مکالمے پیش کئے ہیں، روح افزاءاور اس کی بہن کے مکالمے دیکھیں:

روح افزءنے کہا بہن سے
بہتر کوئی جا نہیں چمن سے
گلگشت کریں چلو کہا خیر
کیا جانے کہ ہوگی سیر میں سیر
بولی وہ یوں کہ آشنا تمہارا
پیار انہیں پیاری کا ہے پیارا

راجا اندار نے بکائولی کے متعلق پوچھا تو پریوں نے خاموشی اختیار کی، اصرار پر کہا کہ:

ناتا پرےوں سے اس نے توڑا
رشتہ اِک آدمی سے جوڑا
وہ سن کے خفا ہوا کہا جائو
جس طرح سے بےٹھی ہو اُٹھا لائو


مثنوی گلزار نسیم میں مافوق الفطرت عناصر

قدیم دور کی مثنویوں کا ایک نمایاں عنصر مافوق الفطرت عناصر کا بیان ہے۔ یہ عناصر ان مثنویوں میں خاص طور سے داخل ہو جاتے ہیں جن کے پلاٹ فرضی ہوتے ہیں ۔ کیونکہ وہ تاریخی واقعات کے پابند نہیں ہوتے ہیں چنانچہ یہ عناصر ”سحرالبیان“ میں بھی موجود ہیں اور “گلزار نسیم“ میں بھی مگر ” گلزارنسیم“ میں یہ عناصر زیادہ تعداد میں ملتے ہیں۔جو اسکے ساتھ محیر العقول انداز میں پیش کئے گئے ہیں یہ بیانات دلچسپ ضرور ہیں مگر اس کے ساتھ ہی وہ مثنوی کے تصنع میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔

مثنوی گلزار نسیم میں ڈرامائی عناصر

”گلزار نسیم“ میں جابجا ڈرامائی عناصر موجود ہیں نسیم نے اس مثنوی میں مکالمے پیش کئے ہیں، جو ڈرامہ نگاری کی شان پیدا کر دیتے ہیں، جب روح افزاء رہا ہو کر آئی تو جمیلہ اور بکائولی اس سے ملنے گئیں اور اس کا حال پوچھا نسیم نے اس موقع پر یوں مکالمہ پیش کیا ہے:

روح افزاءسے ہوئیں بغلگیر
صورت پوچھی کہا کہ ”تقدیر

دوسرے مصرعے میں مکالمہ نگاری کی شان موجود ہے، تاج الملوک دلبر بیسوا سے رخصت ہو رہا ہے اس موقعہ کی تصویر نسیم نے یوں کھینچی ہے:

یہ کہہ کے اُٹھا کہ ”لوجان‘‘
جاتے ہیں کہا ”خدا نگہبان‘‘

یعنی کہ ”گلزارنسیم“ میں مختلف مقامات پر ڈرامائی شان موجود ہے۔


مثنوی گلزار نسیم میں سیرت کشی یا کردار نگاری کی خصوصیات

مثنوی”گلزار نسیم“ کے سارے کردار اگرچہ بڑی حد تک مصنوعی اور بناوٹی ہیں تاہم ان کرداروں کی کچھ نمایاں خصوصیات ہیں انہی خصوصیات کی بناء پر ہم ان کرداروں کو سمجھ سکتے ہیں اسی لئے ذیل کی سطروں میں کچھ کرداروں کی خصوصیات کا احاطہ کیا جاتا ہے۔

تاج الملوک کا کردار

مثنوی”گلزار نسیم“ کا ہیرو تاج الملوک ہے اسی کے گرد ساری مثنوی کے واقعات گردش کرتے ہیں مگر تاج الملوک ایک بد بخت شہزادہ ہے کیونکہ اس پر جب باپ کی نظر پڑتی ہے تو وہ اندھا ہوجاتا ہے یوں اسے ملک بدر کیا جاتا ہے۔ نسیم نے اس بات کو یوں بیان کیا ہے:

صاد آنکھوں کی دیکھ کر پسر کی
بینائی کے چہرے پر نظر کی
مہر لب شہ ہوئی خموشی
کی نور بصر نے چشم پوشی


تاج الملوک ایک حساس اور فرشناس انسان ہے جب بادشاہ کی بینائی جاتی رہی تو چاروں شہزادے گل بکائولی کے پیچھے روانہ ہوئے اس وقت تاج الملوک نے بھی اسے اپنا فرض سمجھا اور گل بکائولی کی تلاش میں روانہ ہوا۔ تاج الملوک ایک ذہین شہزادہ تھا اس کے مقابلے میں چاروں بھائی بے وقوف اور کم عقل تھے۔ تاج الملوک بہت موقع شناس تھا ۔ جب تلاشِ گل بکائولی میں سلطنت ارم کی سرحد تک پہنچا تو سرحد کا دیو انہیں کھانے کو دوڑا۔ لیکن اسی اثناء میں وہاں سے کچھ اُونٹوں کا گزر ہوا۔ جن پر سامان خوردونوش لدا ہوا تھا۔ جن ان کو کچا کھانا چاہتا تھا لیکن تاج الملوک کے ذہن میں آیا کہ اس کو پکا کر کھلایا جائے تو یہ خوش ہو جائے گا۔ چنانچہ اس نے حلوہ پکایا ۔ اس واقعے کو پنڈت دیا شنکر نسیم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

حلوے کی پکا کر اک کڑھائی
شیرینی دیو کو چڑھائی!
ہرچند کہ تھا وہ دیو کڑوا
حلوے سے کیا منہ اس کا میٹھا

تاج الملوک نے موقع سے فائدہ اٹھایا، اور اس سے کہا مجھے گل بکائولی کی تلاش ہے۔اس کے علاوہ تاج الملوک بہت حوصلہ مند اور با ہمت نوجوان تھا اس نے گل بکائولی حاصل کرنے کے لئے بے شمار مصائب اُٹھائے مگر ہمت نہیں ہاری ۔ جب اسکے بھائیوں نے دھوکے سے اس سے گل بکائولی چھین لی تو اس نے ہمت نہیں ہاری اور ثابت قدمی سے حالات کا مقابلہ کیا اور آخر میں ان کو اس کا صلہ بھی ملا۔ غرضیکہ تاج الملوک میں بے پناہ خوبیاں ہیں وہ ساری مثنوی پر چھایا ہوا ہے۔ اور نمایاں کردار ہے۔


بکاولی کا کردار

مثنوی”گلزار نسیم“ کی ہیروئین بکائولی ہے اس مثنوی میں دوسرا کردار اسی کا ہے ۔ بکائولی ایک پری ہے اس کا حسن چار دانگ عالم میں مشہور ہے۔ جب تاج الملوک اس کی خواب گاہ میں پہنچا تو وہ اس کے حسن کو دیکھ کر دنگ رہ گیا نسیم یوں کہتا ہے:

پرد ہ وہ حجاب سے اُٹھایا
آرام میں اس پری کو پایا
بند اس کی وہ چشم نرگسی تھی
چھاتی کچھ کچھ کھلی ہوئی تھی

بکائولی کی خوبی یہ ہے کہ وہ ذہین و ہوشیار ہے جب اس کا پھول چرایا گیا تو وہ اس کے تلاش میں گھر سے نکلی آخر کار زین الملوک کے شہر میں داخل ہو گئی بادشاہ کے پوچھنے پر اس نے خود کو غریب اور غریب زدہ بتایا اور اپنا نام فرخ اور باپ کا نام فیروز بتایا بادشاہ نے اُسے شہزادہ جان کر اپنا وزیر بنا لیا۔ بکائولی ایک وفادار بیوی بھی ہے جب زین الملوک وطن روانہ ہو رہا تھا تو بکائولی وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے انکے ہمراہ جانے کے لئے تیار ہوگئی انہوں نے والدین سے اجازت چاہی:

پردیسیوں سے جو کی نسبت
اب کیجئے ہنسی خوشی سے رخصت


بکائولی آخر وقت تک تاج الملوک کو نہیں بھولی اور آخر وقت تک تاج الملوک کا ساتھ دیا جب اس نےدہقان کے گھر میں دوبارہ جنم لیا تو اس نے تاج الملوک سے دوبارہ شادی کی۔ یعنی کہ بکائولی اپنے حسن، عقلمندی اور وفاداری کی بناپر ایک کامیاب ہیروئن نظر آتی ہے۔

دلبر بیسواکا کردار

”گلزار نسیم“ میں دیگر کردار بھی ہیں جو اہم نہیں ہیں مثلاً دلبر ایک بیسوا ہے جو لوگوں کو چوسر کھلاتی ہے اور ان کو شکست دے کر دولت کماتی ہے۔ محمودہ حمالہ دیونی کے ساتھ رہتی تھی جس کو وہ دم دلاسا دے کر اپنے ساتھ لے آتی تھی ۔ اس نے حمالہ سے تاج الملوک کی سفارش کی کہ وہ بکائولی حاصل کرنے میں مدد کرے۔

چتراوت کا کردار

چتراوت سنگل دیپ کے راجا کی بیٹی ہے جو تاج الملوک پر عاشق ہو گئی ہے۔ بہرام ایک وزیر زادہ ہے اور تاج الملوک کا دوست ہے۔ مگر سارے کردار ضمنی حیثیت رکھتے ہیں اس لئے ان پر بحث ضروری نہیں ۔

مثنوی گلزار نسیم کا اسلوب

”گلزارِ نسیم“، ”سحرالبیان“ کے تقریباً نصف صدی بعد لکھی گئی اس وقت تک لکھنوی معاشرہ ایک واضح شکل اختیار کر چکا تھا ۔ اب زندگی کے لوازمات میں ہی نہیں بلکہ طرز فکر اور طرزِ گفتار میں بھی تکلف اور رنگینی آگئی تھی۔ چنانچہ” گلزار نسیم“ پڑھتے ہوئے قدم قدم پر یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کی زبان اور اسلوب وہ نہیں جو نصف صدی پہلے میرحسن نے ختیار کیا تھا۔ میرحسن کے اندازِ نگارش میں دہلوی اور لکھنوی دونوں دبستانوں کی آمیزش ہے۔ لیکن گلزارِ نسیم “ خالصتاً لکھنوی رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ”سحرالبیان“ کے بنیادی اوصاف صفائی، زبان، لطف، محاورہ، جذبات نگاری اور منظر نگاری اور منظر کشی تھے۔ لیکن نسیم کے زمانے تک لکھنو کی زندگی اس قدر رنگین ہو گئی تھی کہ لوگ تحریر اور تقریر میں تکلف کو لازمی قرار دینے لگے تھے۔ چنانچہ نسیم اور ان کے ہمعصر شعراءکا رنگینی اور مرصع کاری کی طرف غالب رجحان ہے۔ نسیم کی اپنی طبیعت میں مرصع کاری اور ذوق جمال کے عناصر موجود تھے اس کے علاوہ انہوں نے مثنوی کے لئے جس قصے کا انتخاب کیا اس کے واقعات اس قدر مربوط حیران کن اور پراسرار تھے کہ انسان کی قوت متخیلہ کو تحریک ملتی تھی۔اس مثنوی کے بارے میں آزاد لکھتے ہیں:

” لوگ اسے پڑھتے ہیں اور جتنی سمجھ آتی ہے اس پر لوٹے جاتے ہیں“


رعائت لفظی

”گلزار نسیم“ کی ایک نمایاں خصوصیت رعایت لفظی ہے اس میں نسیم نے یہ کمال کیا ہے کہ یہ احساس نہیں ہوتا کہ کوئی لفظ دوسرے لفظ سے مناسبت کی وجہ سے خواہ مخواہ بھر دیا گیا ہے ۔ رعایت لفظی مشکل صنعت ہے اور اس کا نباہنا آسان نہیں، اس سلسلے میں یہ اشعار دیکھیں:

سایہ کو پتا نہ تھا شجرکا
عنقا تھا نام جانور کا
ہم بستر آدمی پری تھی
سائے کی بغل میں چاندنی تھی

تشبیہ و استعارہ

نسیم نے اس مثنوی میں تشبیہوں اور استعاروں کا استعمال بڑی خوبی سے کیا ہے یہ تشبیہیں اور استعارے نسیم کے اشعار میں کلام کا ایک جزو بن کر آتے ہیں ۔ ان کے الگ وجود کا احساس نہیں ہوتا:

یوں سیج پہ آکے سوئی بے تاب
جس شکل سے آئے آنکھ میں خواب
آغوش کی موج سے وہ مضطرب کے
مچھلی سی نکل گئی تڑپ کے


صنائع و بدائع کا استعمال

”گلزا ر ِ نسیم“ میں صنائع بدائع کا استعمال بھی اچھی طرح کیا گیا ہے اس وقت کی لکھنوی شاعری میں صنائع بدائع کثرت سے استعمال ہوتے تھے اور شعراء بعض اوقات محض زور کلام کے لئے صنعتوں کا استعمال کرتے تھے ”گلزار نسیم “ کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

سوال جواب پوچھا کہ طلب کہا قناعت

پوچھا کہ سبب کہا قناعت

حسنِ تعلیل

گوشے میں کوئی لگانہ ہوئوے
خوشہ کوئی تاکتا نہ ہووے

تجنیس

اک جنگل میں جاپڑا جہاں گرد
صحرائے عدم بھی تھا جہاں گرد

ضرب المثال

بعض اشعار اس قدر حقیقت سے قریب ہوتے ہیں ان میں اتنی سچائی ہوتی ہے کہ دل میں گھر کر لیتے ہیں یا ان کے اسلوب میں اتنی سلاست اور شیرینی ہوتی ہے کہ وہ فوراً زبان پر چڑھ جاتے ہیں ۔ ایسے اشعار ضرب المثال کی طرح مشہور ہو جاتے ہیں کئی دفعہ ضرب المثال کو نظم کر دیتے ہیں، یہاں دونوں قسم کے اشعار ملتے ہیں۔
اور پڑھیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے